Respected Visiter Country Flag Counter

free counters

Wednesday, August 4, 2010

مضامین قرآن - تلاوت سے پہلے تعوذ کی حکمت

عارف باﷲ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم
اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ نے تلاوتِ قرآنِ پاک کی ابتداء میں اعوذ باﷲ من الشیطٰن الرجیم پڑھنے کا حکم فرمایا۔ بات یہ ہے کہ دفعِ مضرت مقدم ہے جلبِ منفعت پر، اسی لیے کلمہ میں لا الٰہ پہلے ہے کہ پہلے غیر اﷲ کو دل سے نکالو پھر الا ا ﷲ کو دل میں پاؤگے۔ عود کی خوشبو لگانے سے پہلے جسم سے گندگی، پسینہ کی بدبو دور کرنا ضروری ہے ورنہ عود کی خوشبو محسوس نہ ہوگی اسی طرح اﷲ تعالیٰ کی لذتِ قرب کے لیے غیر اﷲ سے طہارت اور پاکی ضروری ہے اسی لیے کلمہ میں لاالٰہ کو مقدم فرمایا کہ پہلے غیر اﷲ کو دل سے نکالو پھر الا اﷲ کی خوشبو ملے گی۔

قرآن پاک میں ہے:حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنِ رَؤُفٌ رَّحِیْمٌ
(سورۃ التوبۃ، آیت:۱۲۸)
اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ نے رؤف کو مقدم فرمایا رحیم پر۔ اور حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ کے کیا معنیٰ ہیں کہ میرا نبی تم پر حریص ہے، سوال یہ ہے کہ کس چیز پر حریص ہے؟ تمہارے مال پر یا تمہاری جیب پر؟ نہیں۔ ان چیزوں سے نبی کا کیا تعلق۔ علامہ آلوسی نے کیا عمدہ تفسیر کی ہے: حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ اَیْ عَلٰی اِیْمَانِکُمْ وَصَلاَحِ شَأنِکُمْ میرا نبی تمہارے مال کا نہیں بلکہ تمہارے ایمان کا اور تمہاری اصلاحِ حال کا حریص ہے ۔ آپ کی یہ شانِ کرم تو سب کے ساتھ ہے خوا مومن ہو یا کافر لیکن بالمؤمنین رؤف رحیمایمانداروں کے ساتھ تو بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں۔ بالمؤمنین کی تقدیم بتاتی ہے کہ رافت اور رحمت صرف مؤمنین کے لیے خاص ہے کافروں کے لیے نہیں، رافت کے معنیٰ دفعِ ضرر کے ہیں اور رحمت کے معنیٰ جلبِ منفعت کے ہیں اور دفعِ مضرت چونکہ مقدم ہے اس لیے اﷲ تعالیٰ نے رؤف کو رحیم سے پہلے نازل فرمایا۔
اسی قاعدہ کُلّیہ سے اﷲ تعالیٰ نے تلاوت سے پہلے اعوذ باﷲ من الشیطان الرجیم پڑھنے کا حکم دے کر دفعِ مضرت کو مقدم فرمایا کہ شیطان میرا دشمن ہے جو تمہارابھی دشمن ہے اعوذ باﷲپڑھ کر اسے بھگا دو تاکہ وہ تمہارے دل میں وساوس نہ ڈال سکے۔ محدثِ عظیم ملا علی قاری مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں: اَلشَّیْطَانُ کَالْکَلْبِ الْوَاقِفِ عَلَی الْبَابِ شیطان کی مثال اس کتے کی سی ہے جو دروازہ پر کھڑا رہتا ہے جیسے دنیا کے بڑے لوگ فارنر کا بڑا کتا بھیڑیا نسل کا رکھتے ہیں۔ پس اﷲ تعالیٰ تو سب سے بڑے ہیں لہٰذا ان کا کتا بھی تمام کتوں سے سے بڑاکتا ہے، اکبر الکلاب ہے۔ حضرت ملا علی قاری لکھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اعوذ باﷲ کا حکم دے کر بتا دیا کہ جب تم دنیاوی بڑے لوگوں کے کتے کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو میرے کتے کا مقابلہ کیسے کرسکتے ہو لہٰذا مجھ سے پناہ مانگو جس طرح بڑے لوگوں سے جب ملنے جاتے ہو تو ان کا کتا بھونکتا ہے تو آپ کتے سے نہیں لڑتے بلکہ اس کے مالک سے کہتے ہیں کہ ہم آپ سے ملنے آنا چاہتے ہیں اپنے کتے کو خاموش کر دیجئے تو مالک خاص کوڈ، خاص الفاظ کہتا ہے جس سے کتا دم ہلانے لگتا ہے تو اﷲ تعالیٰ نے اپنے کتے شیطان سے اور اس کے وسوسوں سے اور اس کی دشمنی سے بچنے کے لیے یہ نہیں فرمایا کہ تم شیطان سے براہِ راست مقابلہ کرو بلکہ اعوذ باﷲ من الشیطان الرجیمکہو کہ میں پناہ مانگتا ہوں اﷲ کی مدد سے اس مردود کتے سے جو گیٹ آؤٹ کیا ہوا دربار کے باہر کھڑا ہے، جو شخص دربار میں داخل ہونا چاہتا ہے یہ بھونکتا ہے لہٰذا تم اس مردود سے بات ہی نہ کرو، مردود ناقابلِ جواب، ناقابلِ التفات، ناقابلِ گفتگو ہوتا ہے بات تو دوست سے کی جاتی ہے، میں تمہارا دوست، تمہارا ولی، تمہارا مولیٰ ہوں لہٰذا مجھ سے کہو اعوذ باﷲ اے اﷲ تیری پناہ چاہتا ہوں شیطان مردود سے، جب تم نے میری پناہ مانگ لی تو اب شیطان تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

No comments:

Post a Comment